سموگ نہ صرف بیماریوں کا باعث، کاروبار کی بھی قاتل

آج کافی عرصے بعد جناب محسن نواز اور سجاد ملک سے ملاقات ہوئی ، دوران ملاقات پنجاب میں چھائی سموگ موضوع گفتگو رہا ، جناب محسن نواز نے بتایا کہ لاہور اور ملتان میں زہریلی سموگ کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے ، گزشتہ ایک دہائی کے دوران لاہور شہر گوجرانولہ ، قصور اور شیخوپورہ تک پھیل چکا ہے ، سینکڑوں ہاؤسنگ سوسائٹیز ملک کی زرعی زمینیں نگل چکی ہیں ، ملتان میں بند بوسن اور پرانا شجاع آباد روڈ پر آموں کے باغات کو کاٹ دیا گیا ، ملتان کے ایک کونے میں ڈی ایچ اے بنا دیا گیا ہے اور شجاع آباد کے قریب سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے ، یہ سارے زرعی رقبے تھے ، زہریلی سموگ کی وجہ سے اب ملتان اور لاہور میں رہنا نا ممکن ہو چکا ہے ، یہ شہر نا قابل رہائش ہو چکے ہیں ، اندازہ کریں بڑے شہروں میں تو سموگ کا ہونا سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں آبادی زیادہ ہے ، گاڑیاں ہیں ، فیکٹریاں اور کارخانے ہیں ، جن کا دھواں سموگ بن جاتا ہے ، لیکن پنجاب کے آخری اضلاع بھکر ، راجن پور اور روجھان تک سموگ کی گہری چادر تنی ہوئی ہیں ، ان علاقوں میں نہ تو شہروں کا دھواں ہے اور نہ ہی کارخانوں اور فیکٹریوں کی چمنیاں جل رہی ہیں ، مگر یہاں بھی لوگ سموگ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں ، لوگوں کے گلے زہریلی سموگ سے بند ہو چکے ہیں ، سارا دن منہ پر ماسک لگا ہوا ہے ، آواز نکالنا اور سانس لینا محال ہے ۔ سموگ کا دائرہ اسلام آباد تک پھیل چکا ہے ، لیکن یہاں اب بھی لاہور اور ملتان کی نسبت سموگ کی شدت کم ہے ، لیکن اسلام آباد کا موسم بھی گزشتہ ایک دہائی سے کافی تبدیل ہو چکا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار کراچی ، لاہور اور ملتان سے چار گنا زیادہ ہے ، اسلام آباد کا ماسٹر پلان ایف سکس اور ایف سیون تک محدود ہے ، اسلام آباد میں انتہائی بے ہنگم طریقے سے آبادی بڑھ رہی ہے ، چاروں طرف ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سی ڈی اے کی گورننس ختم ہوتی جا رہی ہے ، اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس ، جی سیون آب پارہ ، کراچی کمپنی ، جی الیون ، جی 12 آپ کو کچی آبادی کا منظر پیش کریں گے ، بہارہ کہو ، ترامڑی ، کھنہ پل ، اور باقی تمام نواحی علاقوں میں سی ڈی اے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، ان علاقوں میں پانی ، سیوریج اور سڑکوں کی حالت انتہائی نا گفتہ بہہ ہے ۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں ہر مہینے کنٹینر لگے ہوتے ہیں ، 15 روز ریڈ زون سیل ہوتا ہے ، اس دوران آپ دفتری اوقات یا سکول کی چھٹی کے وقت اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلیں تو ہر شاہراہ پر ٹریفک بلاک نظر آئے گی ، ظلم یہ کہ جلسہ صوابی میں ہو رہا ہوتا ہے مگر ڈی چوک کو پہلے بند کر دیتے ہیں ۔ اگر اسلام آباد کی یہی صورتحال رہی تو آئندہ ایک دو سالوں میں یہاں بھی لاہور اور ملتان جیسی سموگ نظر آئے گی ، میرا خیال ہے کہ اگر سموگ کی یہی صورتحال رہی تو پاکستان میں خزانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے ، کیونکہ جب لوگوں کے کام کاروبار ، تین تین ماہ تک بند رہیں گے تو لوگ باہر نکلیں گے ، ایک دوسرے سے جھگڑیں گے ، جب کاروبار بند ہوں گے تو معیشت کیسے چلے گی ؟ ٹیکس کون دے گا ؟ یقینا بے روزگاری بڑھے گی ، آپ خود اندازہ لگائیں اگر کسی کا کاروبار دو ماہ کیلئے بند کردیا جائے تو اس کی کیا حالت ہوگی ؟ فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور دو وقت کی روٹی کیسے کھائیں گے ، تنخواہ دار ملازمین اپنے بچوں کو سکول کیسے بھیجیں گے ؟ ملکی حالات پہلے ہی خراب ہیں ، ہر شخص پاکستان سے بھاگنا چاہتا ہے ، کاروباری لوگوں کے پاس پیسہ ہے ، وہ اپنا کاروبار کسی اور ملک شفٹ کردیں گے ۔ حکمران گرمیوں کی چھٹیاں ویسے ہی لندن میں گزارتے ہیں اور اب سموگ کے دوران بھی جنیوا اور سوئٹزر لینڈ چلے جائیں گے ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کے پاس سموگ پر قابو پانے کا کوئی ٹھوس اور مستقل حل نہیں ہے ، آخر سموگ پر قابو کیسے پایا جائے گا ؟ ہم ہر کام ڈنگ ٹپاؤ طریقے سے کرتے ہیں ، سموگ ختم کرنے کیلئے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں ، نماز استسقاء پڑھ رہے ہیں ، اگر اللہ نے باران رحمت دے دی تو سموگ چند روز کیلئے ختم ہو جائے گی۔