انسانی بال سے 200 گُنا باریک اسپگیٹی

سائنس دانوں نے انسانی بال سے 200 گُنا باریک دنیا کی باریک ترین اسپگیٹی بنا لی۔اس پاستا کو بنائے جانے کا مقصد اس کو نئی غذا کے طور پر متعارف کرانا نہیں ہے بلکہ اس انتہائی باریک مٹیریل یعنی نینو فائبرز کو متعدد طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔نینو فائبرز کے استعمال میں ایک زخم کو ٹھیک کرنے والی پٹیاں بنانا بھی ہے جو پانی اور نمی کو تو زخم تک جانے دیتی ہیں لیکن بیکٹیریا کو باہر رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہڈی کے دوبارہ بننے کے لیے فریم اور دوا کی ڈیلیوری کے لیے بھی اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔البتہ، یونیورسٹی کالج لندن کے محققین کا کہنا ہے کہ ان دھاریوں کو براہ راست نشاستہ (اسٹارچ) سے بھرپور اجزاء (جیسے کہ آٹا) سے بنانا زیادہ ماحول دوست ہے۔نشاستہ سے بنے نینو فائبرز (جو کہ زیادہ تر سبز پودوں سے بنائے جاتے ہیں) اس نشاستہ پر انحصار کرتے ہیں جو کہ پودوں کے خلیوں سے نکالے جاتے ہیں اور صاف کیے جاتے ہیں اور اس عمل کو بڑی مقدار میں پانی اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ایڈم کلینسی کا کہنا تھا کہ اسپگیٹی بنانے کے لیے آپ پانی اور آٹے کے مرکب کو دھاتی سراخوں سے گزارتے ہیں۔ اس تحقیق میں ہم نے بھی یہی کیا بس ہم نے آٹے کے مرکب کو برقی چارج کے ذریعے کھینچا۔ یہ حقیقتاً اسپگیٹی ہی ہے لیکن بہت باریک۔نینو اسکیل ایڈوانسز میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے صرف 372 نینو میٹر (ایک میٹر کا ایک ارب واں حصہ) موٹی اسپگیٹی بنانے کے متعلق بتایا۔اس بنانے کے عمل میں سائنس دانوں نے الیکٹرو اسپننگ تکنیک کا استعمال کیا جس میں آٹے اور پانی کے دھاگوں کو ایک سوئی کی نوک کے ذریعے برقی چارج کی مدد سے کھینچا جاتا ہے۔