پاکستان کی ایک تہائی آبادی شوگر کے مرض سے متاثر ہے، طبی ماہر

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کی ایک تہائی آبادی شوگر کے مرض سے متاثر ہے۔ اس سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اوجھا کیمپس میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹیز اینڈ انڈوکرائنالوجی(نائیڈ) کے زیر اہتمام عالمی یوم ذیابیطس پر آگہی سیمینار کا انعقاد ہوا۔منعقدہ تقریب سے مہمان خصوصی وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کے ساتھ پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا حسن، پرنسپل ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج پروفیسر محمدافتخار، پروفیسر مسرت ریاض ڈائریکٹر نائیڈ، ڈاکٹر حسن خان، ڈاکٹر فرید، ماہرِ غذائیت مس تہمینہ نے بھی خطاب کیا۔آگہی سیمینا ر میں فیکلٹی، اسٹاف اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔سیمینار سے خطاب میں پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا حسن نے ذیابیطس کے حوالے سے عوام میں آگہی پیدا کرنے کے لیے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی کوششوں کو سراہا اور اسے ڈائبیٹیز کنٹرول کی اجتماعی کوششوں سے تعبیر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس پر قابو پانے کے لیے اجتماعی کے ساتھ انفرادی کوششوں کی زیادہ ضرورت ہے۔آپ متوازن غذا کھائیں، چہل قدمی کریں تاکہ شوگر کو کو کنٹرو ل کیا جاسکے۔انہوں نے ڈاکٹرز کو تجویز پیش کی کہ ذیابیطس کے حوالے سے آگہی کی کوششوں کو مختلف کمیونیٹیز تک پھیلایا جائیاور سیشنز کا انعقاد کیا جائے۔ پرنسپل ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج پروفیسر محمد افتخار نے خطاب میں ہر موقع پر میٹھا کھانیاور صحت مند طرز زندگی اپنانے سے متعلق گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ ہم موٹے نہیں ہیں، ہماری ڈائٹ بھی نارمل ہے، ورزش بھی کرتے ہیں پھر بھی ہمیں ذیابیطس کا خطرہ لاحق رہتا ہے،لہذا ہمیں بہت زیادہ احتیاط کرنی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جس میں بچے کی پیدائش سے لے کر وفات تک ہر جگہ میٹھا کھانے میں شامل ہوتا ہے۔ شہر میں ہر جگہ مٹھائیوں کی دکانیں ہیں، یہی نہیں ہزاروں کی تعداد میں ڈبے اسلام آباد اور لاہور سے آتے ہیں۔ ہمیں اس کلچر کو تبدیل کرنا ہے،محبت کا اظہار کرنا ہے تو چاکلیٹ دے دیں یہ بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کی اس کوشش کے طور پر ڈاؤ یونیورسٹی میں مختلف میٹنگز میں اب کیک، سموسے، فاسٹ فوڈ کی جگہ پھل پیش کیے جاتے ہیں۔انہوں نیاس با ت پر زور دیا کہ کھانا، مٹھائی، فاسٹ فوڈ ہی رشتوں میں محبت کے اظہار کاطریقہ نہیں ہے۔ڈائریکٹر نائیڈ پروفیسر ڈاکٹرمسرت ریاض نے آگہی سیمینار سے خطا ب میں کہا کہ ذیابیطس کا مرض پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل چکا ہے اور اب اس پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کے عالمی دن کی مناسبت سے آگہی واک کا انعقاد بھی اسی لیے کیا گیا کہ عوام کا ایک بڑاحصہ چہل قدمی نہیں کرتا اور ذیابیطس پر قابو پانے میں اس کے اہم کردار سے لاعلم ہے۔انہوں نے کہا کہ شوگر سے متاثرہ اکثر افراد اپنے مرض سے لاعلم ہوتے ہیں اور مختلف طبی پیچیدگیاں لاحق ہونے کے بعد انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذیابیطس کا شکا ر ہیں لہذا اس حوالے سے آگہی اور اس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ کنٹرولڈ شوگر آپ کی بہتر صحت سے منسلک ہے۔بعدازاں سیمینار سے خطاب میں ڈاکٹر حسن خان نے کہا کہ اگر آپ چاول کھاتے ہیں تو ابال کر اس کا پانی نہیں ڈالتے، آلو زیادہ کھاتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جس سے شوگر بڑھتی ہے۔کھانے پینے میں احتیاط بہت ضروری ہے ساتھ میں آپ ہلکی پھلکی ورزش کریں۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو عادت نہیں ہے تو کسی سرگرمی میں حصہ لیں۔ ڈاکٹر فرید نے کہا کہ شوگر پر قابو پانے سے متعلق ہم بار بار اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ابتدا ہی میں پیچیدگیوں سے بچا جاسکے اور دل کا عارضہ یا دیگر بیماریاں نہ لاحق ہوں۔ماہرغذائیت مس تہمینہ نے کہا کہ غلط تصور ہے کہ کھانے کے ساتھ پھل کھائے جائیں، پھل کا استعمال کھانے کے دو گھنٹے بعد ہونا چاہیے کیونکہ کاربوہائیڈریٹس کیساتھ مل کر وہ شوگر لیول بڑھا دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گھر کے تمام افراد کو کچی سبزیوں یا ان کا سلاد بناکر ضرور کھانا چاہیے اور زندگی کو نظم وضبط کے مطابق گزاریں، کھانے کے وقت کھانا، نیند کے وقت بھرپور نیند اور ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں۔قبل ازیں ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس میں عالمی یوم ذیابیطس پر آگہی واک کا انعقادہواجس کا آغاز ڈاؤ اسپتال کے ٹراما سینٹر سے کیا گیا اور نائیڈ پر اختتام ہوا۔