آسٹریلیا کے بائیومیڈیکل انجینئروں نے ایک تھری ڈی پرنٹنگ سسٹم (بائیو پرنٹر) ایجاد کیا ہے جو کہ انسانی جسم کے مختلف بافتوں (دماغ کے نرم بافتوں سے لے کر کارٹیلج اور ہڈی جیسے سخٹ مٹیریل) کی حد درجہ نقل بنانے کی صلاحیت رکھتاہے۔یہ نئی ٹیکنالوجی کینسر کے محققین کو مخصوص اعضاء اور بافتوں کی نقل بنانے کے لیے ایک جدید آلہ فراہم کرتی ہے، جو نئی فارماسوٹیکل تھراپیز کو وضع کرنے میں واضح بہتری لا سکتا ہے۔ کمرشل بنیادوں پر دستیاب تھری ڈی بائیو پرنٹر کم رفتار تہہ بہ تہہ فیبریکیشن کے طریقے پر مبنی ہیں، جس کو متعدد مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس طریقہ کار میں پرنٹنگ کی تکمیل میں گھنٹوں کا وقت لگ سکتا ہے جس سے عمل کے دوران زندہ خلیوں کی بقا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ پرنٹنگ کے بعد تجزیے اور امیجنگ کے لیے خلیوں کے سانچوں کو احتیاط کے ساتھ اسٹنڈرڈ لیبارٹری پلیٹس میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔لیکن یونیورسٹی آف میلبرن کے محققین کی ٹیم نے پیچیدہ آپٹیکل پر مبنی نظام بنا کر تہہ بہ تہہ فیبریکیشن کے طریقے کو بدل دیا ہے۔یہ نئی تکنیک تھری ڈی خلیاتی سانچے پرنٹ کرنے کے لیے وائبریٹنگ ببلز کا طریقہ استعمال کرتی ہے جو کہ روایتی طریقے سے تقریباً 350 گُنا تیز ہے اور محققین کو خلیاتی مضبوطی کے حامل انسانی بافتوں کی درست نقل بنانے میں مدد دیتی ہے